آٹھ سال قبل کی بات ہے،سال بھر کی مسلسل تدریسی مصروفیات کے بعد طبیعت میں نشاط و تازگی کیلئے شہر بھٹکل کے ساحل بحیرہ عرب سے آٹھ دس کلو میٹر کے فاصلہ پر موجود ایک جزیرہ پر جا کر پکنک منانے کیلئے ایک چھوٹے سے سمندر ی جہاز پر ہم دوست احباب کا ایک قافلہ جمعرات کے دن ظہر کے بعد روانہ ہوا۔ بل کھاتی لہروں اور اوپر اٹھتی موجوں کے درمیان سفر کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ ہمارے رفقاءاس دیدنی منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن میرا ذہن کہیںاور ہی تھا۔ میں سمندر کی وسعتوں کے پس منظر میں کائنات کی بے پناہ وسعتوں کے متعلق سوچ رہا تھا اور قادر مطلق شہنشاہ کے حسن نظم اور اس کے بے کراں خزانوں کے متعلق متعدد تحقیقی و سائنسی گوشے میرے ذہن میں مستحضر ہو رہے تھے۔ خود میری تحریر کردہ مختلف جغرافیائی کتابوں کے مختلف ابواب مجھ سے گویا تھے اور زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ تم جس جزیرہ پر جارہے ہو وہ نہایت چھوٹا ہے اور چند ہی کلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل ہے جب کہ ایسے سات لاکھ جزیرے سمندر میں موجود ہیں۔ اس میں سب سے بڑا گرین لینڈ کا جزیرہ تنہا اکیس لاکھ پچھتر ہزار چار سو کلو میٹر پر مشتمل ہے۔گویا پوری دنیا کا رقبہ کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہندوستان ان سات لاکھ جزیروں میں سے صرف ایک جزیرہ میں سما سکتا ہے۔
جس سمندر میں ہم سفر کر رہے تھے اس کی اوسط گہرائی سترہ ہزار فٹ تھی یعنی دوسرے الفاظ میں اس میں ایک ہزار سات سو منزلہ طویل عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ دنیا کے پانچ بڑے سمندروں میں صرف بحرالکاہل کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ تنہا یہ سمندر پوری روئے زمین کی خشکی سے زیادہ جگہ گھیرے ہوئے ہے،بالفاظ دیگر چھ براعظم اس میں سما سکتے ہیں اور اس کا رقبہ 16کروڑ 52لاکھ مربع کلو میٹر ہے جبکہ جملہ سمندروں کا رقبہ 32کروڑ 11لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ یعنی کرہ ارض کا تقریباً دو تہائی سے زائد حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے۔ جن مچھلیوں کے شکار کے شوق میں ہم جارہے تھے اس کی کثرت تعداد کا یہ عالم ہے کہ چند سال قبل اسکاٹ لینڈ کے مچھلی پکڑنے کے مقابلہ میں ایک ارب مچھلیاں بیک وقت پکڑی گئیں تھیں۔
میں اسی سوچ میں گم تھا اور ہمارا جہاز ہچکولے کھاتے ہوئے بل کھاتی لہروں کے درمیان چل رہا تھا۔ وقفہ وقفہ سے ہمیں دور سمندر میں بعض چٹانیں نظر آتیں تھیں ۔جو کچھ ہی دیر میں غائب بھی ہو جاتی تھیں۔ ہمارے بعض ساتھیوں نے جہاز کے کپتان سے اس سلسلہ میں جب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ چٹانیں نہیں بلکہ دراصل وہیل مچھلیاں ہیں جو سانس لینے کیلئے سمندر کی سطح پر آجاتی ہیں اور پھر اچانک اندر چلی جاتی ہیں۔ چٹانوں کی طرح نظرآنے والے یہ حصے ان کی وسیع پیٹھ کے چھوٹے سے حصے ہوتے ہیں۔ یہ سنکر میرا ذہن اپنی جغرافیہ کی کتاب کے ایک باب کی طرف منتقل ہوا جس میں بتایا گیا ہے کہ ان وہیل مچھلیوں کی چوڑائی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بیس پچیس آدمی صرف اس کے منہ میں بیک وقت کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس کی لمبائی عام طور پر ڈیڑھ سو فٹ ہوتی ہے اور ایک وقت کی غذا اوسطاً 70/80 کلو یعنی ریاضی کے حساب سے پچاس ہزار کلو غلہ سالانہ صرف ایک وہیل مچھلی کیلئے مطلوب ہے جبکہ سمندر میں اس طرح کی مچھلیوں کی تعداد کروڑوں سے زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کیا انسانوں کیلئے ہمیشہ تو درکنار صرف ایک وقت ان مچھلیوں کو کھانا کھلانا ممکن ہے؟ میں اپنے ہی خیالات میں مست تھا کہ ہمارا جہاز جزیرہ پر لگا اور چھوٹی کشتی کے ذریعہ ہم لوگ جزیرہ پر کچھ ہی دیر میں پہنچ بھی گئے۔
تھوڑی دیر ہم لوگ تیراکی سے لطف اندوز ہوئے، کچھ دیر مغرب سے پہلے ریت پر کبڈی بھی کھیلتے رہے۔ پھر نہا دھو کر اورکپڑے بدل کر کھانے کے دستر خوان پر پہنچ گئے۔ اس دوران جب بعض ساتھیوں نے پینے کا پانی طلب کیا تو ہمارے کشتی بان نے یہ کہہ دیا کہ صرف تین کین میٹھا پانی ہے، سنبھال کر رکھیے واپس جانے تک پینے کا یہی پانی ہے۔ اسراف بالکل نہ کیجئے۔ یہ سننا تھا کہ میں محو حیرت رہ گیا اور زبان حال سے گویا ہوا۔ یااللہ ہر طرف پانی، اربوں لیٹر پانی، دائیں پانی، بائیں پانی، جدھر نگاہ دوڑاﺅ ادھر پانی اور پھر پانی کی کمی کی شکایت اور احتیاط کی تلقین کا کیا معنی؟ لیکن مجھے یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگی کہ پانی تو ہے لیکن کھارا پانی۔ پیاس بجھانے والا میٹھا پانی، سیراب کرنے والا شیریں پانی، راحت پہنچانے والا ٹھنڈا پانی نہیں ہے۔ جب میں نے میٹھے پانی کا گلاس منہ کو لگایا تو بے اختیار میری زبان سے نکلا: اے اللہ! تیرا کس قدر شکر ادا کروں تو نے محض اپنے فضل سے میٹھا پانی پلایا۔ پھر میں نے اپنے معمول کے مطابق پانی پینے کے بعد کی دعا بھی پڑھی۔ دفعتاً میرا خیال اس کے ترجمہ کی طرف گیا تو احساس ہوا کہ محسن انسانیت و نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیشہ ہر بار پانی پینے کے بعد اس طرح کے شکر و حمد کے کلمات دہرانے کا معمول بنایا تھا اور اپنی امت کو بھی اس کی تعلیم دی تھی کہ وہ کہیں: اے اللہ تیرا ہی شکر ہے کہ تو نے محض اپنے فضل سے میٹھا اور پاکیزہ پانی پلایا، اگر تو چاہتا تو ہمارے لیے ہمارے گناہوں کی بدولت اس کو بھی کھارا کر دیتا، اگر تو ایسا کرتا تو تجھے حق تھا اور تیرے عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہی ہوتا لیکن اے اللہ تو نے ایسا نہیں کیا۔
اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی سَقَانَا بِرَحمَتِہ مَائً اعَذباً فُرَاتاً وَلَم یَجعَلہُ بَذُنُوبِنَا مِلِحًآ اُجَاجاً
اس دعا کے پڑھنے کے بعد بالعموم میرا ذہن اقوام متحدہ کے شعبہ صحت کی جانب سے جاری اس رپورٹ کی طرف جاتا ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ کہے جانے والے دورمیں بھی دنیا کی نصف سے زائد آبادی یعنی تین ارب لوگ صاف اور پینے کے لائق پانی سے محروم ہیں اور وہ گندا ، گدلا اور غیر معیاری و ناقص پانی پینے پر مجبور ہیں اور آج بھی دیہاتوں میں عورتیں اور بچے علی الصبح میٹھے پانی کیلئے دو دو کلو میٹر دور کنوﺅں پر جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ میٹھا پانی ایک ایسی نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی دولت بھی اس کا بدل نہیں بن سکتی۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے جسم کا ہر عضو زندہ رہنے کیلئے اس کا محتاج ہے۔ اس کے بغیر نہ کھانا ہضم ہو سکتا ہے اور نہ جذب ہو سکتا ہے اور نہ اس کے بغیر ہمارا خون گردش کر سکتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پانی تو نعمت ہے ہی، میٹھا پانی اس سے بڑی نعمت ہے۔ جس پر اللہ پاک کا ہمیشہ شکر ادا کرنا چاہیے جو روز ہمیں اس نعمت سے نوازتا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 502
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں